Orhan

Add To collaction

غم دوراں

اے ساقئ مہ وش غم دوراں نہیں اٹھتا
درویش کے حجرے سے یہ مہماں نہیں اٹھتا

کہتے تھے کہ ہے بار دو عالم بھی کوئی چیز
دیکھا ہے تو اب بار گریباں نہیں اٹھتا

کیا میرے سفینے ہی کی دریا کو کھٹک تھی
کیا بات ہے اب کیوں کوئی طوفاں نہیں اٹھتا

کس نقش قدم پر ہے جھکا روز ازل سے
کس وہم میں سجدے سے بیاباں نہیں اٹھتا

بے ہمت مردانہ مسافت نہیں کٹتی
بے عزم مصمم قدم آساں نہیں اٹھتا

یوں اٹھتی ہیں انگڑائی کو وہ مرمریں بانہیں
جیسے کہ عدمؔ تخت سلیماں نہیں اٹھتا


عبدالحمید آدم

   5
0 Comments